شمس الدین گذشتہ 40 سالوں سے ٹور گائیڈ کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ ان برسوں میں انھوں نے آگرہ میں تقریبا 40 مشہور شخصیات کو تاج محل کی سیر کرائی ہے۔
ان میں سے ایک برطانوی شہزادی ڈیانا بھی ہیں جنھیں انھوں نے تاج محل کی سیر کروائی تھی۔ اب چونکہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے واضح طور پر کہا ہے کہ ہمیں کچھ وقت کے لیے کورونا وائرس کے ساتھ ہی جینا پڑے گا ایسے میں شمس الدین کا خیال ہے کہ سیاحت کا کاروبار مکمل طور پر بدل جائے گا۔
ان کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعد بھی مہینوں اور سالوں تک سیاحت کا انداز پہلے کی طرح نہیں رہے گا۔ اب گروپ کے بجائے لوگ تنہا یا جوڑیوں میں سیاحت کے لیے نکلیں گے۔
وہ کہتے ہیں: 'تصور کریں کہ آپ مستقبل میں تاج محل کے سامنے ماسک پہن کر اپنی تصویر کھنچوا رہے ہیں۔'
بہت حد تک اس بات کا اندیشہ ہے کہ ماسک پہننے کا پروٹوکول تمام سیاحتی مقامات اور تاریخی مقامات پر نافذ کر دیا جائے۔ سماجی دوری پر عمل کرنا لازمی قرار دیا جائے جس کی وجہ سے سیاحتی مقامات پر لوگ کم تعداد میں پہنچیں گے۔
ہوائی سفر
ہوائی سفر کے ماہر اشونی پھدنیس کا کہنا ہے کہ انٹرنیشنل ایئر ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن (آئی اے ٹی اے) نے مجوزہ پروٹوکول 'بائیوسکیورٹی فار ایئر ٹرانسپورٹ: اے روڈ میپ فار ایوی ایشن' جاری کیا ہے۔
اس میں بین الاقوامی سطح پر پرواز کرنے والے مسافروں کی حفاظت پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ انڈیا کی وزارت شہری ہوا بازی بھی اسی طرح کے ایک پروٹوکول پر کام کر رہی ہے۔
جس طرح بیرون میں ہوائی اڈوں پر مسافروں کی اسکریننگ کے لیے کمپیوٹر نصب کیے جارہے ہیں، اسی طرح انڈیا میں بھی سکریننگ نظام نصب کرنے کے منصوبے بنائے جارہے ہیں تاکہ ہوائی اڈے کے اہلکاروں کو مسافروں کے قریب جانے سے بچایا جاسکے۔
پروٹوکول کے مطابق ’ویب چیک اِن‘ تو لازمی ہوگی ہی لیکن اس کے ساتھ مسافروں کو ایک پرنٹ شدہ بورڈنگ پاس بھی رکھنا ہوگا۔ اس کے علاوہ اپنے سامان کو ’چیک اِن‘ بھی خود ہی کرنا ہوگا۔
اشونی پھدنیس کا کہنا ہے کہ 'کچھ پروازوں میں مسافر اب ایئر ہاسٹس کے مسکراتے چہرے نہیں دیکھ پائیں گے کیونکہ کچھ ائر لائنز کمپنیاں اپنے عملے کے لیے پی پی ای کو لازمی قرار دینے پر غور کر رہی ہیں۔'
لیکن اس کے ساتھ ہی پروازوں میں درمیانی نشست پر بیٹھنے کے فیصلے پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔ پہلے فیصلہ کیا گیا تھا کہ درمیانی نشست خالی رہے گی۔ بہت ساری بین الاقوامی پروازوں میں اس اصول پر تعمیل کی جارہی ہے۔ اس میں امارات اور قطر ایئرویز شامل ہیں۔
اشونی کا کہنا ہے کہ 'فلائٹ پروٹوکول میں مسلسل تبدیلی آرہی ہے اور آنے والے ہفتوں اور مہینوں میں ہم نیا پروٹوکول دیکھ سکتے ہیں۔'
اندرون ملک پروازوں کو بین الاقوامی پروازوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ بڑے چیلنج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے کیونکہ مختلف ریاستوں کے اپنے پروٹوکولز ہوں گے۔
مثال کے طور پر اگر دلی سے سواری ایسی حالت میں جاتی ہے، جہاں کورونا انفیکشن اتنا زیادہ نہیں ہے تو اس کے لیے قواعد سخت ہوں گے۔ 14 دن کا قرنطینہ لاک ڈاؤن ختم ہونے کے بعد بھی مہینوں تک جاری رہ سکتا ہے۔
آئی اے ٹی اے کی ہدایات کے مطابق آنے والے مہینوں میں طیارے کے اندر موجود تمام مسافروں کے لیے اپنے چہروں کو ڈھانپنا لازمی قرار دیا جانے والا ہے۔ کیبن اور کیٹرنگ سروس میں بھی کٹوتیاں ہو سکتی ہیں تاکہ سواری اور عملے کے ممبر کم سے کم رابطے میں آئيں۔
پھدنیس کا کہنا ہے کہ ایئرلائنز الٹرا وایلیٹ ٹیکنالوجی کی مدد سے پرواز سے قبل ہوائی جہازوں کی صفائی کے متعلق ہدایات جاری کرنے پر غور کررہی ہیں۔ وزارت کے کچھ ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ سواریوں اور عملے کے ممبروں کے لیے چہرے لازمی طور پر ڈھکے رکھنے کی ہدایت پر غور کر رہی ہے۔
ٹرین کا سفر
آنے والے وقتوں میں ٹرین میں سفر کرنا بہت مشکل ہوسکتا ہے۔ وزارت ریلوے کے ایک اعلیٰ عہدیدار کا کہنا ہے کہ مستقبل میں کسی کمپارٹمنٹ کے ساتھ پلیٹ فارم پر بھی محدود تعداد میں مسافروں کو جانے کی اجازت ہوگی تاکہ جسمانی فاصلے کی مناسب طریقے سے پیروی کی جاسکے۔
زیادہ تر ٹرینیں جن میں تین درجے کے سلیپرز موجود ہیں کو ہٹایا جارہا ہے تاکہ درمیانی نشست کو مناسب فاصلے کے لیے استعمال کیا جاسکے۔
کوچوں کے اندرونی ڈیزائن کو اس انداز میں تبدیل کیا جارہا ہے کہ مسافروں کو معلوم ہوکہ ٹوائلٹ خالی ہے یا نہیں۔
تاہم یہ ابھی تک واضح نہیں ہوسکا ہے کہ پینٹری کار کی خدمت جاری رہے گی یا نہیں۔ اگر وہ اسی طرح کام کرتے رہے تو پھر ممکن ہے کہ وہاں صرف پانی اور کھانا ہی پیکنگ میں دستیاب رہے۔ ہم پرانے وقتوں تک واپس پہنچ سکتے ہیں جب مسافر گھر سے اپنے تکیے اور چادر لے کر چلتے تھے۔
پھدنیس کہتے ہیں: 'ریلوے سٹیشن اب ہوائی اڈوں کی طرح ہوجائیں گے۔ ہوائی اڈے کے پروٹوکولز کو سٹیشن پر نافذ کیا جا سکتا ہے، جس کے تحت آپ کو وقت سے پہلے سٹیشن پہنچ کر ٹرین کے کھلنے سے چار گھنٹے قبل اطلاع دینا ہوگی۔ ہمیں ان تمام اسکریننگ کے طریقوں سے گزرنا پڑ سکتا ہے جیسے ہوائی اڈے پر ہوتا ہے۔
تاہم ریلوے بیت الخلا کے بعد سینیٹائزر فراہم کرے گی لیکن آپ کو بھی اسے ساتھ رکھنا لازمی ہوگا۔
لاک ڈاؤن کے دوران ٹرین کی سروسز مکمل طور پر تعطل کا شکار رہی ہے۔ لیکن اب آہستہ آہستہ کچھ ٹرینیں چلنا شروع ہوگئی ہیں۔ تاہم عہدیداروں کا کہنا ہے کہ جب ٹرینیں مکمل طور پر چلنا شروع کردیں گی تب ہی نئے قواعد نافذ ہوسکتے ہیں۔
قومی شاہراہ
انڈیا میں ایک کونے سے دوسرے کونے تک اور ایک ریاست سے دوسری ریاست تک جانے کے لیے قومی شاہراہیں اور ریاستوں کو ملانے والی شاہراہیں اہمیت کی حامل ہیں۔
ان شاہراہوں کے ساتھ بنے ہوئے ڈھابوں کا کبھی بہت لوگوں کو بہت شوق ہوا کرتا تھا۔ یہاں تک کہ بڑے شہروں میں رہنے والے لوگوں میں بھی اس کا زبردست جنون پایا جاتات تھا۔ رومانس کا احساس بھی ان شاہراہوں سے وابستہ ہے۔ لیکن آنے والا وقت بالکل مختلف ہونے والا ہے۔
روڈ ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن کے ممبر راجیو اروڑا کا کہنا ہے کہ 'آنے والے دنوں میں لوگ چارپائی بچھا کر ڈھابوں کے باہر وقت گزارنے کے بارے میں نہیں سوچیں گے۔'
معاشرتی دوری کی وجہ سے بہت ساری پابندیوں کو برقرار رکھنا پڑے گا اور کوشش کرنی ہوگی کہ کم سے کم لوگ ایک دوسرے کے رابطے میں آئیں۔
راجیو کہتے ہیں: 'ہوسکتا ہے کہ آپ نے ایک کپ چائے کا آرڈر دیا ہو اور کسی ویٹر کے بجائے وہ آپ کو لمبی لکڑی کی چھڑی کے ساتھ چائے پیش کی جائے۔ شاہراہوں پر زندگی اب پہلے جیسی نہیں ہوگی۔'
انھوں نے مزید کہا ہے کہ ڈھابہ مالکان کو ٹرک ڈرائیوروں اور عملے کے ساتھ ساتھ عام لوگوں کے لیے بھی کچھ الگ انتظامات کرنا ہوں گے۔ چونکہ شاہراہیں متعدد ریاستوں سے گزرتی ہیں، اس لیے یہ واضح ہے کہ ڈھابہ کے لیے تمام ریاستوں کی طرف سے مختلف قسم کی ہدایات جاری کی جائیں گی۔
میٹرو سے سفر
انوج دیال دہلی میٹرو ریل کارپوریشن کے ترجمان ہیں۔ وہ اس منصوبے پر کام کر رہے ہیں کہ میٹرو کی بحالی کی صورت میں میٹرو سروس کس طرح کام کرے گی۔
بی بی سی کے ساتھ گفتگو میں انھوں نے کہا کہ انھیں ایک نشست چھوڑنے کے لیے کہا جائے گا اور کچھ لوگوں کو کھڑے ہونے کے لیے کہا جائے گا۔
اس کا مطلب یہ ہوگا کہ میٹرو عہدیداروں کو آفس جانے کے وقت بھیڑ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ہوائی اڈے پر ہونے والے میٹرو کی موجودگی میں بھی اسی پروٹوکول پر عمل کرنا پڑے گا۔ اندر جاتے ہوئے سماجی فاصلے کی پیروی کرنا لازمی ہوگا۔ تھرمل اسکریننگ اور ایکسرے سامان کی اسکریننگ جاری رہے گی۔
حالانکہ ان نئی تبدیلیوں کی وجہ سے میٹرو میں کوچوں کی تعداد اور ان کی نقل و حرکت میں اضافہ کرنا پڑے گا۔ سکیورٹی گارڈز ہر کوچ کے باہر پلیٹ فارم پر موجود ہوں گے تاکہ یہ دیکھیں کہ کوچ میں زیادہ ہجوم تو نہیں ہے۔
میٹرو کارپوریشن کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ راجیو چوک جیسے بھیڑ والے میٹرو اسٹیشن پر یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہوگا۔ کارپوریشن اس پر عمل کرنے پر غور کررہی ہے۔
سفری بیمہ
انشورنس بزنس گروپ دبئی کے جنرل سکیریٹری آفتاب حسن کا کہنا ہے کہ آنے والے وقت میں ٹریول انشورنس سفر کا ایک حصہ ہوگا۔
وہ کہتے ہیں: 'کورونا کے بعد کی دنیا یقیناً بہت زیادہ بدل گئی ہوگی۔ عام طور پر لوگ پیسے بچانے کے لیے ٹکٹ خریدتے وقت ٹریول انشورنس کا آپشن منتخب نہیں کرتے ہیں۔ لیکن اب حالات بدل چکے ہیں۔ اب یہ کسی بھی سفر کا ایک اہم حصہ بننے والا ہے۔ خواہ آپ کام کے سلسلے میں یا چھٹی کے دن کہیں جارہے ہوں۔
عام طور پر سفری انشورنس کے تحت وبائی امراض کو شامل نہیں کیا جاتا ہے۔ اس کے لیے آپ کو ایک اضافی فیس ادا کرنا ہوگی۔ لیکن حسن کہتے ہیں کہ جلد ہی وبا کی کوریج مستقبل کے سفری انشورنس کا لازمی حصہ بن جائے گی۔
شمس الدین کہتے ہیں کہ جس مستقبل کا ہم سامنا کرنے جا رہے ہیں کسی کو اس کی توقع نہیں تھی۔
وہ کہتے ہیں: 'اگر وقت پر یہ ویکسین نہیں ملی تو مسافروں کے لیے سب کچھ بدل جائے گا۔ لیکن اگر یہ ویکسین دریافت ہوئی تو جلد ہی ہماری زندگی پہلے کی طرح ہو جائے گی۔'
Comments
Post a Comment